اس بلاگ میں تلاش کریں

منگل، 12 نومبر، 2013

احمد کہاں گیا؟

نام تو اس کا خدا جانے کیا تھا، مگر میں اسے رول نمبر  7کے حوالے سے آج بھی بھول نہیں پایا۔ شاید وہ نوید تھا، یا پھر اختر، یا پھر احمد یا کوئی اور۔ چلئے ھم اسے احمد ھی سمجھ لیتے ھیں۔ 
یہ 1996ء کی بات ھے، جب میں نے میٹرک کرنے کے بعد نیا نیا کالج میں جانا شروع کیا۔ کیمسٹری کی پہلی کلاس تھی۔ احمد میرے بائیں طرف بیٹھا ھوا تھا۔ سخت گیر طبیعت کے مالک رحمت علی صاحب نے طلباء سے کچھ بنیادی سوالات پوچھنا شروع کئے۔
‘‘Define Matter?’’
رحمت صاحب نے احمد کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا۔
قومی لباس میں ملبوس اور بے اعتمادی سے بیٹھے ھوئے احمد کے چہرے پر شرمندگی اور پریشانی نمایاں تھی۔
میں نے بظاھر اپنا چشمہ درست کرنے کے بہانے اپنا ھاتھ اوپر کو اٹھایا اور اس کی آڑ میں اپنے ھونٹ سر کی نگاھوں سے چھپاتے ھوئے احمد کی مدد کرنا چاھی، اور دبے دبے لہجے میں کہا
‘‘which has mass and occupies space.’’
احمد نے اسے سنا تو ضرور، مگر باوجود کوشش کے اسے دھرا نہ سکا۔
"بول نا یار۔۔۔۔"
مگر احمد چپ کا چپ ھی رھا۔
یہ خاموشی دیکھتے ھوئے رحمت صاحب نے اسے اپنی روایتی خفگی کے ساتھ  ڈانٹا اور سخت اور قدرے تحقیر آمیز لہجے میں پوچھا کہ اس کے میٹرک میں کتنے مارکس آئے ہیں؟
رحمت صاحب کی طرح میں بھی ایسا ھی سمجھ رہا تھا کہ اس کے کافی کم مارکس ھوں گے، تبھی تو اسے ایک انتہائی بنیادی نوعیت کے سوال کا جواب معلوم نہیں۔ میری توقع کے برعکس احمد کلاس کے ٹاپ کے مارکس رکھنے والا نکلا۔ اس کے مجھ سے بھی  50مارکس زیادہ تھے۔
مگر اتنے اچھے مارکس لینے والا لڑکے کو کلاس میں شرمندہ کیوں ھونا پڑا؟
اس سوال کا جواب مجھے تب سمجھ آیا، جب برسوں بعد مجھے خود ایک اکیڈمی میں پڑھانا پڑا۔ مجھے احساس ھوا کہ اردو میڈیم سے میٹرک کرنے والے لڑکے لڑکیاں کیوں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ھیں۔ ان کے لئے مادہ اورمیٹر* میں زمین ، آسمان کا فرق ھے۔ وہ اسراع سے تو واقف ھوتے ھیں، مگر ان کے لئے ایکسیلریشن** ایک بھیانک لفظ ھے۔ وہ کمیت کو تو جانتے ہیں، مگر ماس*** ان کے لئے نامانوس اصطلاح ھے۔ وہ طول ماسکہ کو بخوبی سمجھتے ھیں، مگر ان کے لئے فوکل لینتھ**** کے ھجے کرنا دشوار۔
مجھے اندازہ ھوگیا کہ اگر رحمت صاحب انگریزی میں سوال کرنے کی بجائے اردو میں یہ پوچھتے کہ ’’مادہ کی تعریف کیا ہے؟‘‘ تو احمد کو جواب دینے میں کوئی دشواری نہ ھوتی۔ میٹرک میں اس قدر بہترین مارکس لینے کے باوجود اسے وہ ماحول نہ مل سکا، جو اس کا حق تھا۔ جانے اس نے کتنی محنت کی ھوگی، مگر کچھ عرصے بعد مجھے رول نمبر 7 کلاس میں نظر نہیں آیا۔ خدا جانے احمد کہاں گیا؟ 
مجھے ٹھیک سے اندازہ نہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کے طلباء کے بیچ اس خلیج کو دور کرنے کے لئے کتنے جتن کئے گئے ھیں۔ شاید انگریزی اصطلاحات کو اردو رسم الخط میں لکھ کر نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔ ھاں، یہ ایک مناسب درمیانہ راستہ دکھائی دیتا ھے، مگر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ھے۔ ہمیں ابھی وہ سب کچھ کرنا ھے، کہ جس کے ھوتے ھوئے کوئی طالب علم پڑھائی کو اپنے لئے بوجھ نہ سمجھنے لگے، اور کسی اور احمد کو دل برداشتہ ھو کر اپنی پڑھائی ترک نہ کرنی پڑے۔ بصورت دیگر احمد کی طرح جانے کتنے ہی ذہین دماغ مایوسی کا شکار ھو کر ہمیشہ کے لئے تاریکیوں میں کھو جاتے رھیں گے۔ ھمیں ھر حال میں ایسا ھونے سے روکنا ھے۔
(تحریر: سبز خزاں)
*matter  **acceleration  ***mass   ****focal length
بشکریہ: ابتداء





بدھ، 11 ستمبر، 2013

تتلی اور طوفان

نظریہء انتشار (Chaos Theory)، سائنس کی دنیا کا ایک دلچسپ فکری میدان ہے۔ یہ نظریہ ہماری توجہ ان عوامل کی جانب مبذول کراتا ہے جو بظاہر ایک معمولی دکھائی دینے والی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئیے اس بات کو کچھ مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرض کیجئے، آپ نے ٹھنڈے پانی سے بھری ہوئی کتیلی، چولہے پر رکھی۔ پانی ابلنے میں کچھ وقت لے گا۔ اگر تو آنچ ہلکی ہے تو ذیادہ وقت درکار ہوگا، اور اگر چولہے کو تیز آنچ پر رکھا جائے تو پانی نسبتاً کافی جلدی ابل جائے گا۔ ابتدائی حالت میں پانی ٹھنڈا تھا، جب کہ اپنی حتمی حالت میں پانی ابلا ہواملے گا۔ پانی کو ایک حالت سے دوسری حالت تک لے جانے کا انحصار چولہے کی آنچ پر ہے۔ ہم بہت آسانی سے یہ مشاہدہ اور انداز کر سکتے ہیں کہ پانی نے کب تک ابلنا شروع کر دینا ہے۔یہ سارا عمل ہمارے قابو یا اختیار میں ہوگا۔

اب آئیے ہم ایک دوسری مثال لیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ کسی سیاسی اجتماع میں ہیں جہاں آپ کے گرد ہزاروں کا مجمع ہے۔ اگر اس ہجوم میں کوئی ہلکی سی بد نظمی ہو جائے تو ممکن ہے کہ ایسی افراتفری پھیلے کہ لوگ ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے جائیں۔ پانی والی مثال کے برعکس یہاں ہمارے لئے کچھ بھی اندازہ لگانا دشوار ہے کہ آنے والے لمحے میں کیا صورت حال رونما ہو سکتی ہے اوریہاں ہمارے اختیار میں بہت کم حصہ ہے۔ اس مثال سے ہمیں نظریہء انتشار کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جیسا کہ آغاز میں لکھا گیا ہے یہ نظریہ ان عوامل کے بارے میں بحث اور استدلال کرتا ہے جو کسی معمولی سی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن حد تک مختلف نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہجوم میں افراتفری کی مثال آسان انداز میں تمہید باندھنے کی غرض سے تھی۔ اب ہم ایک نہایت دلچسپ اورغیرمعمولی مثال سے جان سکیں گے کہ ایک سائنسدان کس باریک بینی سے قدرتی مظاہر کا مشاہدہ کرتاہے، اور اس کے نزدیک کائنات میں رونما ہونے والاہرعمل، کس طرح دوسرے عمل سے ایک گہری وابستگی رکھتا ہے۔

فرض کیجئے کہ امریکہ میں ایک تتلی ، کسی باغ میں اڑتی چلی جارہی ہے۔ تتلی کے پروں کی پھرپھراہٹ سے ہوا کے ذرات میں انتشار پھیلے گا، اور وہ ذرات اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے کچھ آگے، پیچھے ہو نے لگیں گے۔ ایک ذرے کی حرکت سے دوسرے ذرے پر کچھ دباؤ پڑے گا اور وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔یہی عمل آگے کے ذرات پر بھی رونما ہو گا۔ذرا سوچئے کہ تبدیلی کا یہ عمل بالکل ویسا ہی رخ اختیار کر لیتا ہے، جیسا کہ اوپر دی گئی سیاسی اجتماع والی مثال میں ہوا، تو کیا ہوگا؟ جی ہاں، ہوا کے ذرات میں اس قدر افراتفری پھیل جائے گی کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ ممکن ہے ہوا کے دباؤ میں کمی بیشی کسی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو تبدیلی کی لہر مزید بڑھتے بڑھتے دوسرے علاقوں، شہروں یا ملکوں کا رخ بھی کرسکتی ہے۔ نظریہء انتشار کے مطابق اس عمل کو “Butterfly Effect” کا نام دیا جاتا ہے۔ گویا کسی ایک جگہ پر تتلی کے اڑنے کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ہوا میں ایسا انتشار پھیلے جو بحراوقیانوس تک میں طوفان لے آئے۔

گھبرائیے نہیں اور نہ ہی تتلیوں کے پر نوچ ڈالئے۔ اگر انسان کی تمام تر تخریبی کاروائیوں کے باوجود کائنات ابھی تک ناتمام ہے توکسی معصوم سی تتلی کی وجہ سے اس میں بھلا کوئی حرف کیوں آنے لگا۔ تاہم چوں کہ ہرعمل کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلتا ہے، تو ایسا ہونا محض ممکنات میں سے ایک ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہاں صرف "Cause and Effect" کے قانون کا اطلاق کر رہے ہیں۔

آئیے ان تمام تر مثالوں سے اب ہم اپنی زندگیوں کے لئے کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اپنی زندگی میں کچھ مقاصد لے کر آگے بڑھتے ہیں اور ہمارے سامنے ایک واضح لائحہ عمل بھی ہوتا ہے۔ ہم اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے وقت پر یا وقت سے بھی کہیں پہلے اپنے خواب، سچ کر دکھاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کیا حاصل کرنا ہے، اور ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے حصول میں کتنا وقت لگ سکتا ہے یا ہم کس انداز میں اسے جلد از جلد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں پانی کی کتیلی کی مثال صادر آتی ہے، جہاں پانی ابالنے کے لئے ہمیں معلوم ہے کہ چولہے کی کتنی آنچ، کتنے دورانئے کے لئے درکار ہے۔ اس طرح بعض اوقات، ہم حالات کی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو کر وقت اور پے در پے نازل ہونے والے بحرانوں کے سامنے ویسے ہی بے بس اور کمزور دکھائی دیتے ہیں، جیسے ایک سیاسی اجتماع میں افراتفری کا رزق بننے والے لوگ۔ایسا صرف انفرادی زندگیوں میں ہی نہیں، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ہوتا ہے۔

بیشتر قومیں، اپنے مستقبل کے لئے ایک واضح تصور رکھتی ہیں اور اس تصور کو تصویر اور حقیقت کا روپ دینے کے لئے جہدِ مسلسل سے کام لیتی ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ٹھہراؤ اورایک سکون رہتا ہے۔ دوسری جانب بیشتر قومیں ،بغیر کسی واضح لائحہ عمل کے ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتی ہیں، اور اس کے نتیجے میں بجائے آگے کی جانب سفر کرنے کے، پتھر کے دور میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ جذباتیت اور غیرمنطقی استدلال کی پروردہ ایسی قومیں، ایک کے بعد دوسرے سراب کے پیچھے دوڑتی چلی جاتی ہیں، اورپھر تھک ہار کر جب گرنے لگتی ہیں، تو کسی اور کے کندھے پر اپنی ناکامی کا ملبہ ڈال دیتی ہیں۔ اپنی کوتاہ نظری کو چھپانے کے لئے، خود کو کسی عالمی سازش کا شکار سمجھنے لگتی ہیں اور اپنے انہی رہنماؤں کوشدت سے مطعون کرتی ہیں، جنہیں خود ہی بہت چاؤ سے مسند اقتدار پربٹھایا ہوتا ہے۔

بلا سوچے سمجھے، اور کسی دور اندیشی کے بغیر کئے جانے والے فیصلے، آغاز میں بظاہر ویسے ہی بے ضرر دکھائی دیتے ہیں، جیسا کسی تتلی کے پروں کی پھرپھراہٹ، مگر وہی فیصلے بعد میں، کئی نسلوں کے لئے روگ بن جاتے ہیں اور ایسے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں، جو اپنے ساتھ، خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے۔

(سبز خزاں)


اتوار، 8 ستمبر، 2013

زندگی مقدس ھے


غربت، بری صحبت، ایڈونچر یا کسی دکھ سے فرار – سبب چاھے کچھ بھی ھو، نشہ موت ھے. صرف ایک فرد کے لئے ھی نھیں، اس کے گھر بار اور پورے معاشرے کے لئے. اپنے ارد گرد نظر رکھئے. کہیں آپ کا بچہ، دوست یا کوئی عزیز اس لت کا شکار نہ ھو رھا ھو. اپنے اقربا اور اولاد کے ساتھ نرم برتائو رکھیں. کہیں آپ کے سخت روئیے سے دلبرداشتہ ھو کر آپ کا بچہ بری صحبت نہ اختیار کر لے. جو آپ سے محبت کرتے ھیں، ان سے حسن سلوک کیجے. کہیں آپ کے نظر انداز یا رد !کر دئیے جانے کی صورت میں، کوئی اپنی زندگی کی قدروقیمت کهو نہ دے

زندگی مقدس ھے. اس سے پیار کیجئے

(سبز خزاں)


بدھ، 4 ستمبر، 2013

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

کچھ پینتیس چالیس برس سے قبل تک فیشن کی بیماری امیر زادوں کے لئے مخصوص تصور کی جاتی تھی، پھر طبقۂ شرفاء بھی اس عارضے میں مبتلا نظر آنے لگا اور ’’فیشن‘‘ کی جگہ ’’ماڈرن‘‘ کا لفظ مستعمل ہوا اور اب تو یہ حال ہے کہ خاکروب اور کنڈیکٹر بھی پینٹ شرٹ کے بغیر باہر نکلتے ہوئےعار محسوس کرتے ہیں۔ شلوار قمیص صرف رات سونے کے لئے مجبوراً استعمال ہوتا ہے کہ آرام کے لئے آرام دہ لباس ضروری ہے مگر اب کم بخت ’’شارٹ‘‘ اور ’’ٹراؤزر‘‘ نے یہاں بھی شلوار قمیص پہ شب خون مارا۔ 
               ایسا نہیں ہے کہ میں پینڈو ہوں ہاں البتہ پیدا ضرور گاؤں میں ہوا لیکن چھ ماہ کی عمر میں کراچی چلا گیا، ایک سال وہاں کی سیر کے بعد لاہور آیا اور مزید ایک سال بعد پنڈی رہائش پذیر ہوا۔ جب میں چھ سال کا تھا تو والد صاحب کو اسلام آباد میں آبپارہ کے پاس ایک سرکاری مکان مل گیا اور ہم فیڈرل سٹیزن شپ کے حامل قرار پائے۔               غالباًمیری عمر کوئی سات برس اور چھوٹا بھائی لگ بھگ پانچ برس کا ہو گا کہ ہمیں والد صاحب نے سلیٹی رنگ کے چیک کے کپڑےکے، جس پر سفید اور کالے رنگ میں جمع کے نشان (+) بنے تھے، سفاری سوٹ سلوا کر دیے۔ ہمارا پتلون اور بش شرٹ سے پہلا تعارف تھا لہٰذا شرم ایک فطری بات تھی۔ میں نے تو اپنی پتلون کو ہاتھ بھی یوں لگایا جیسے دلہا اپنی برانڈ نیو دلہن کو پہلی بار چھوتا ہےاور پھر اسی بےخودی و وارفتگی کے عالم میں اسے چاروں اَور سے گھوم گھوم کے اور جھوم جھوم کے دیکھا۔ پتلون کے انداز بھی کچھ کم دلبرانہ نہ تھے۔ جیسے ہی پہنی، وہ والہانہ انداز میں ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ یہ عجب ہوئی، میں ایک طرف سے اسے ٹانگوں سے جدا کروں تو وہ لپک کر دوسری طرف سے چپک جائے اس پر سہاگہ یہ کہ بش شرٹ اس سے بھی نرالی یعنی اگر سر میں خارش ہوئی ہے تو ہاتھ کی آخری حد کان تک ہے۔ نئے کپڑے کی ایک الگ ہی سرمستی اور گدگدی ہوتی ہے چنانچہ گردن سے بالشت بھر نیچے مجھے ایسی ہی کسی سرگرمی کا احساس ہوا اور کھجانے کی کوشش میں بش شرٹ کو سینے کے دوسرے بٹن کی جدائی کا صدمہ جھیلنا پڑا۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ ہمارا ہی پہلا تجربہ تھا یا درزی کا بھی پہلا ہی تجربہ تھا؟
               اب والدہ کی فرمائش کہ باہر جاؤ (کہ دنیا میرے لال کو پیلا ہوتے دیکھے) لیکن حیا اس حکم کی سرتابی پہ اکسائے اور میں لاشعوری طور پر ہاتھ پشت پر باندھ لوں۔ عجب کشمکش کا عالم کیونکہ باہر دوست انتظار میں ہوں گے اور اس حال میں دیکھ کر خوب پھبتیاں کسیں گے۔ چھوٹے بھائی نے بہادری دکھائی اور ایک شانِ بے نیازی سے باہر نکل کر ویسپا کے ٹائر کو ڈنڈے سے گھمانے لگا (غالباً کنڈیکٹروں کے حوصلے یہیں سے بلند ہوئے یعنی ’’الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا‘‘۔ میرے ہم عمروں نے کہلا بھیجا کہ بھائی باہر آؤکہ کھیل کا وقت نکلا جاتا ہے۔ جانا بھی ضروری تھا کہ کھیل کے لوازمات کے اخراجات کی مد میں ایک روپیہ بھی صرف کیا تھا اور اس وقت تک کرکٹ کا کھیل پسند بھی بہت تھا لہٰذا ناچار باہر نکلے اور نکلتے ہی دوستوں کی شوخیوں کا نشانہ بنے، خیر وہ ناگفتنی لکھنے کی یہ جا نہیں۔
               گھر سے میدان تک کا سفر اسی سوچ میں گزرا کہ ’’اس لباس میں آخر کیونکر کھیل سکوں گا، بھاگوں گا کیسے اور بلےبازی تو نہایت شرمناک فعل ہو گا، نہ بابا آج بیٹنگ تو بالکل نہیں کروں گا۔‘‘ چشمِ تصوّر سے اپنے مختلف پوز دیکھتا رہا اور شرماتا، لجاتا رہا۔ دوست جو میدان میں جاتے ہوئے ہمیشہ آگے ہوتے تھے، آج کبھی آگے ہوتے اور کبھی پیچھے۔ میری چال میں کبھی لنگڑاہت آجاتی، کبھی بادِ نسیم کی طرح سبک، کبھی مخمور انداز میں قدم بہکتے اور کبھی کسی ناگن کی طرح بَل کھاتی چال کا گمان گزرتا۔ دو ایک بار تو کسی نازک اندام حسینہ کی اٹھلاتی چال سے مشابہت کا احساس ہوا تو میں دیوار سے ٹیک لگا کر ہانپنے لگا، دھڑکن خواہ مخواہ ہی تیز ہو گئی میدان تک کا فاصلہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ میدان میں پہنچے تو مخالف ٹیم کے تو قفرے ہی جدا تھے۔ آج کے دن کے لئے طرح طرح کی پیشین گوئیاں کی جانے لگیں۔ کسی نے کہا ایمپائر بنا دو، کسی نے اکلوتا تماشائی کہا، ایک نے تو علامہ اقبال کی روح بھی کہہ دیا۔ خیرہمارے حصے میں فیلڈنگ پہلے آئی اور مجھے باؤنڈری کے قریب کھڑے ہونے کا حکم ملاتو دل کو بہت کچھ سکون ملا۔ پہلے ہی اوور میں اوپنر نے چھکے کی کوشش کر ڈالی جسے میں نے بڑی چابکدستی اور جانفشانی سے کیچ کر کے آؤٹ کا رنگ دیا جس کے لئے مجھے ایک جمپ لینا پڑا۔ سب ساتھی شاباش دینے آئے تو ایک نے یہ خبر بھی دی کہ اچھلتے وقت تیری ’’ڈھڈی‘‘ نظر آ رہی تھی اور سب ہنسنے لگے۔ مرا فخر اور خوشی شرم کے گھڑوں پانی سے گیلی ہو گئی چنانچہ میچ کے باقی دورانیہ میں دشمن کےکسی بھی زمینی یا فضائی حملے کو میں نہ روک سکا اور ہم میچ ہار گئے۔ واپسی پر بھی میری کارگزاری اور میرا لباس ہی زیرِ عتاب رہا۔
               گھر آیا تو چھوٹی بہن جو مجھے بہت پیاری تھی اور تین برس کی تھی، کو والدہ نے اٹھایا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی والدہ نے کہا کہ اسے اٹھاؤ تا کہ میں کچھ کام کر سکوں۔ میں نے بانہیں پھیلا کے اسے پیار سے بلایا تو اس نے اجنبی اور خشمگیں نظروں سے پہلے مجھے اور پھر میرے لباس کو دیکھا اور گھوم کر والدہ سے لپٹ گئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیا لیکن وہ رونے لگی تو امی نے اسے واپس اٹھا لیا اور مجھے لباس تبدیل کرنے کو کہا۔ شلوار قمیص پہن کر آیا تو چھوٹی بہن دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی اور میری انگلی پکڑ کر باہر کھینچنے لگی۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ قصور کس کا ہے۔
               اب میرا زیادہ تر وقت اس مشاہدہ میں گزرنے لگا کہ کون کون پتلون اور بش شرٹ پہنتا ہےاور کیسا لگتا ہے؟ حیرت ہوئی کہ کافی لوگ یہ لباس استعمال کرتے ہیں اور کئی تو سکول اور دفتر بھی پہن کر جاتے ہیں۔ پھر ایک دن یہ حیرت اپنی انتہا کو پہنچی کہ آبپارہ مارکیٹ میں ایک لڑکی کو جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھا مگر خلافِ معمول وہ مجھے اس لباس میں کافی اچھی لگی اور کن اکھیوں سے میں نے اسے کئی بار دیکھا۔ اگرچہ وہ بھی میری ہی طرح کم عمر تھی مگر اچھی لگ رہی تھی۔ اب اس میں راز کیا ہے، یہ میں نہیں جانتا مگر یہ خیال ایک عمر تک دل سے نہ نکل سکا کہ خواتین اس لباس میں کچھ زیادہ ہی دل فریب نظر آتی ہیں بلکہ دل نے یہ بدخیالی پلے باندھ لی کہ کسی ایسی ہی لڑکی سے شادی کروں گا جو نیلے رنگ کی جینز پہنتی ہو جس پر پیلے رنگ کی موٹی ڈوری کی سلائی ہو، ٹی شرٹ سرخ رنگ کی پہنتی ہو اور اس پر نیلی جینز کی جیکٹ جس کی پشت پر اڑتا ہوا عقاب بنا ہو، پاؤں میں سفید جوگرز اور ڈیڑھ دو فٹ لمبے بال جو سیدھے اور کھلے ہوں، ہائے۔
               ’’نیرنگیٔ قسمتِ دوراں تو دیکھیئے‘‘ کہ جن خاتون سے شادی ہوئی وہ محترمہ سوائے سوتی کپڑوں کے اور کوئی کپڑا پسند ہی نہیں کرتیں کہ ریشم یا جارجٹ یا اسی قبیل کے دوسرے کپڑے پہننے سے انہیں خارش شروع ہو جاتی ہے، بالوں کو وہ ہمیشہ تین بَل میں باندھ کر رکھتی ہیں، جوگرز پہننے سے انگلیوں کے درمیان زخم ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ اندازہ تو کر ہی سکتے ہوں گے کہ اس دلِ پُر فگار پر کیا کیا صدمے نہ گزرے ہوں گے یہ روح فرسانیاں سن کر۔ لیکن ایک دن ہم نے بھی دل کے ارمان نکالنے کی ٹھان لی اور اپنی ایک پتلون بیگم کو چھوٹی کرنے کو کہا۔ وہ حیران تو ہوئیں مگر کر دی۔ ایک جوڑا جوگرز کا بندوبست کیا۔ ایک پرانی جیکٹ بھی پڑی تھی۔ ایک دن موقع پا کر کہ مالک مکان گھر میں نہ تھے، بیگم سے فرمائش کی کہ ذرا یہ لباس تو پہن کر دکھاؤ اور یہ جوگر بھی اور یہ جیکٹ بھی۔ انہوں نے بیک وقت گھبراہٹ اور احتجاج کا سہارا لیا مگر ہم نے بھی جان نہ چھوڑی۔ اب جو وہ اس لباس میں باہر آئی ہیں تو مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔ وہ بھی بالکل اسی انداز میں کبھی پتلون ٹھیک کرتی ہیں، کبھی جیکٹ کا کالر انہیں چبھنے لگتا ہے اور کبھی وہ جیکٹ کو کھینچ کر مزید لمبا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں میں ستائش کو جگہ دینے کی کوشش کی، ہر چند کہ انہیں گھوم گھوم کر بار بار پیار بھری نظروں سے دیکھا مگر وہ ہمیں ویسی ’’دل فریب‘‘ نظر نہ آئیں، نہ جانے کیوں؟
               الحمدللہ، اللہ تعالیٰ کا مجھ پر ہمیشہ بہت فضل و کرم رہا ہے۔ رفتہ رفتہ میرے ذہن نے ’’کیوں؟‘‘ کے جواب تلاش کرنا شروع کیے اور جوابات یا انکشافات ہمیشہ ہی میرے لئے باعثِ رہنمائی رہے۔ یہاں میں اس تحریر کے مقصد کی طرف آتا ہوں اور ایک منظر نامہ پیش کرتا ہوں۔ یہ ایک تقابلی جائزہ ہےاسلام اور ماڈرن ازم یا فیشن کے درمیان اور مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہمارے دشمن کس تندہی اور مکاری سے ہمارے خلاف کار فرما ہیں اور ہم سب نہایت سادہ دلی اور بیوقوفی سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نہ صرف اس کے جال ( جو کہ در حقیقت شیطان کا جال ہے) میں پھنستے جا رہے ہیں بلکہ اس کام میں اس دشمن (جو اللہ کا دشمن ہے) کے ممد و معاون بھی ہیں۔ قرآنِ حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اللہ کے رسول کا طرزِ زندگی تمھارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘۔ یعنی جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے حبیبؐ کی حیاتِ طیبہ کے مطابق گزارنی ہو گی، تب ہی وہ روزِ محشر اللہ تعالیٰ سےمغفرت و بخشش کا طلبگار ہو سکتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا مستحق ٹھہر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ یہود و نصٰرٰی کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ پتا نہیں کہ یہ بات ہمیں کیوں سمجھ نہیں آتی؟ نبی کریم ﷺ کا حکم ہے کہ دوسری قوموں کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ ہم نے فروعی مسائل کے جھانسے میں نئے نئے راستے کیوں اختیار کر لئے؟ موازنہ پیشِ خدمت ہے:
اسلام:     بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرو۔ یہاں مراد صرف قرآن و حدیث کا علم نہیں ہے بلکہ تمام عصری علوم بھی ہیں مگر حکم یہ ہے کہ سب کچھ اسلام کے زیرِ اثر ہو۔
ماڈرن ازم:     کو ایجوکیشن سسٹم، سب کچھ انگریزی میں، کلچر بھی مغربی، لباس بھی مغربی، ماحول بھی مغربی، زبان بھی مغربی اور ہیں مسلمان؟ کتنے لوگ قرآن کی زبان عربی سمجھ، بول اور لکھ سکتے ہیں اور کتنے لوگ انگریزی سمجھ، بول اور لکھ سکتے ہیں، یہ فرق آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔عربی تو کجا ہمیں تو درست انداز میں اردو بھی نہیں آتی۔ ہمارے ہاں تعلیمی ادارے کا ماحول جتنا مغربی ہو گا وہ اسی قدر اہم اور مشہور اور مہنگا ہو گا اور ہم حرام کما کر بھی اس کے اخراجات برداشت کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیا یہ بھٹکنا نہیں ہے؟ طرہ یہ کہ ایسے بچے سے ہم یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ ہماری خدمت بھی کرے گا اور آخرت میں ہمارے لئے باعثِ نجات بھی ہوگا؟
اسلام:     عشاء پڑھ کر سو جاؤ اور فجر کے وقت اٹھ جاؤ۔ یعنی دن کام کے لئے اور رات آرام کے لئے ہے۔ سیرت طیبہ اس عمل کی گواہ ہے اور اللہ پاک بھی بار بار قرآن پاک میں ذکر فرماتے ہیں کہ کیا تم سورج اور چاند کو نہیں دیکھتے؟ ان الفاظ میں ایک مفہوم یہ بھی پنہاں ہے۔
ماڈرن ازم:     سونے کے وقت جاگو اور جاگنے کے وقت سو جاؤ۔ مجھے اس بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، آپ سب جانتے ہیں کہ آج ہمارے معمولات کیا ہیں؟ اور اپنی جہالت پہ قائم رہنے کے لئے ہمارے پاس دلائل کیا ہیں؟
اسلام:     ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جبرائیلؑ نے بار بار مسواک کا اس قدر حکم دیا کہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے مسوڑھے مسواک کرتے کرتے زخمی ہو جائیں گے۔
ماڈرن ازم:     دشمنوں نے اس کا نعم البدل برش نکالا اور نہ صرف خود استعمال کیا بلکہ ہمیں بھی بہکایا۔ ہم آج یہ کہہ کر مسواک سے اجتناب کرتے ہیں کہ اس سے منہ کی بدبو زائل نہیں ہوتی، پیسٹ سے ہو جاتی ہے لیکن اتنی توفیق نہیں ہے کہ مسواک کر کے تو دیکھیں، جو نتیجہ نکلے اس پر کاربند ہوں۔ نعوذبااللہ خالق کی بات نہیں مانیں گے، کافروں کی مان لیں گے؟
اسلام:     رسول اللہ ﷺ اکثر زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔
ماڈرن ازم:     ہم یورپ و امریکہ کی تقلید میں میز اور کرسی پر بیٹھ کر یا آرام کی خاطر بستر پر بیٹھ کر کھانا پسند کرتے ہیں حالانکہ بستر پر بیٹھ کر اور ٹیک لگا کر کھانے یا لیٹ کر کھانے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اگر آپ کو شک ہو تو آپ احادیث یا سیرت کی کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔اسی طرح شادی کی تقاریب میں کھڑے ہو کر کھانا فیشن کا حصہ ہے اور اگر کوئی ہال میں بیٹھ جائے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور معیوب لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ تو دوستو، معیوب کیا ہے؟
اسلام:     کھانا داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور کم از کم چار انگلیاں کھانے کو چھوئیں۔کھانے کے بعد انگلیاں چوس لو۔
ماڈرن ازم:     کانٹا (تین انگلیوں والا)، چھری اور چمچ کی مثال آپ کے سامنے ہے اور چمچ تو ہر گھر میں کئی کئی استعمال ہوتے ہیں۔ اور اختتام کے لئے ٹشو موجود ہے انگلیاں صاف کرنے کے لئے۔ میں نے ایک مانگنے والی کو دیکھا جس کا بچہ چاول کھا رہا تھا۔ کھانے کے اختتام پر اس نے اپنی پوٹلی میں سے ایک مڑا تڑا ٹشو نکالا، اپنے ہاتھ صاف کیے، بچے کے ہا تھ صاف کیے اور پھر اس کی نوزی صاف کر کے ٹشو واپس پوٹلی میں رکھ دیا۔ یہ ہے دشمن کی فتح۔
اسلام:     رسول اللہ ﷺ کا تہبند ہمیشہ ٹخنوں سے اونچا ہوتا اور قمیص گھٹنوں سے نیچے تک۔
ماڈرن ازم:     انگریزی لباس آپ سب کا دیکھا بھالا ہے جو کہ اس سنت کے بالکل مخالف ہے اور اب تو بات کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔
اسلام:     نبی کریم ﷺ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر سوتے تھے یا زمین پر چادر بچھا لیتے۔
ماڈرن ازم:     آج ڈبل بیڈ اور میٹرس کے بغیر نیند کی دیوی مہربان ہی نہیں ہوتی۔ ایک دوست نے تو چارپائی پر ہی میٹرس ڈالا ہوا ہے اور زمین پر میٹرس ڈالنے کا تو عام رواج ہے۔ اگر آپ جاپانیوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو وہاں آج بھی عمومی زندگی میں لکڑی کے پھٹے پر سونے کا رواج ہے۔
اسلام:     سادہ اور پاکیزہ زندگی اختیار کرو۔
ماڈرن ازم:     سادگی اور پاکیزگی کے تو مفہوم سے بھی کم ہی لوگ آگاہ ہوں گے ہاں البتہ ہم صاف ستھرے ضرور نظر آنا چاہتے ہیں اور خوبصورت نظر آنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ خود سوچیئے جہاں انگلش کموڈ اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی غلاظتیں موجود ہوں، وہاں پاکیزگی کا کیا تصور ہو گا؟ جہاں لوگ مسجد کے امام سے اپنی عمومی زندگی کے مسائل پوچھتے ہوں، وہ کتنے باعمل مسلمان ہوں گے؟ آج اگر ہمیں انگریزی سمجھ نہیں آتی تو دشمن نے اس کا بھی انتظام کر دیا ہے۔ انگریزی لکھائی اور ہندی زبان میں انگلش فلمیں، کارٹون، نظمیں اور اسی طرح کا اناپ شناپ بکثرت موجود ہے جس سے اکثرت مستفید ہوتی ہے لیکن سچ بتانا کہ اتنی کوشش اور لگن سے قرآنِ مجید کا ترجمہ و تفسیر کون کون پڑھتا ہے اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کتنے گھروں میں موجود ہیں؟
               ایسی بے شمار باتیں ہیں جو میں سوچتا ہوں اس کے علاوہ بھی نہ جانے کیا کیا کچھ مگر
                           آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
                                                    محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی؟
              آخر میں ایک گزارش کہ خواتین کا خاص خیال رکھیں ( وہ تو آپ رکھتے ہی ہیں، میں جانتا ہوں لیکن میں گھر کی خواتین کی بات کر رہا ہوں) ان کے لئے قرآن و حدیث کا علم بہم پہنچائیں کہ کل آپ کو اس کا جواب دینا ہے چاہے آپ باپ ہیں، شوہر ہیں، بھائی ہیں یا پھر بیٹا۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں اسلام میں بے شمار وعیدیں آئیں ہیں۔ اگر دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سربراہ بنایا ہے تو کل اس سربراہی کا جواب بھی طلب کیا جائے گا۔ اپنا حساب تو دیں گے ہی، ان کا بھی دینا پڑے گا جو ہمارے ذمہ ہیں۔ سو دوستو، ان کے ایمان اور صحت کا بھی خیال رکھیں اور اپنے بچوں کے مستقبل اور آخرت کا بھی۔
             اسی فکر میں غلطاں کسی شاعر نے بہت خوبصورت طنز کیا ہے:
                                لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
                                ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
(مجھے دقیانوسی نہ سمجھئے بلکہ اس بات کو یوں لیجیئے کہ طوفان سے پہلے ہی بند باندھے جاتے ہیں، طوفان آنے پر تو صرف تماشا دیکھا جاتا ہے اور یہ تماشا بھی صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو طوفان سے باہر ہو)

ہفتہ، 17 اگست، 2013

چیختی خاموشیاں

نیت ہر بار یہی ہوتی ہے کہ بات مختصر کروں مگر زورِ گفتار ایسا غضبناک ہے کہ سننے والا بیزار ہو جاتا ہےاور مجھے شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں خود کو کوستا بھی ہوں اور صدق دل سے تہیہ کرتا ہوں کہ اب کی بار صرف جامع بات کروں گا مگر جیسے ہی کوئی سامع ملتا ہے تو ’’بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘
               ہوا یوں کہ اگست ۲۰۰۳ میں میری شادی ہوئی اور کچھ ہی دن بعد زوجہ محترمہ نے پوچھا کہ آپ کہیں سے بیعت ہیں؟ میں نے انکار میں سر ہلایا تو خوشی سے بولیں کہ میں بھی کہیں سے بیعت نہیں ہوں ابھی تک۔ کیوں نہ کسی مستند جگہ سے بیعت ہو جائیں۔ میں نے پوچھا کہ آخر بیعت ہونے کی ضرورت کیا ہےاور یہ بیعت کس لئے ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو مجھے نہیں پتا لیکن بڑوں سے سنا ہےکہ کسی نہ کسی سے بیعت ہونا ضروری ہےاور بیعت سے انسان سدھر جاتا ہے (یہ نئی بات ہوئی)۔
               مجھے اپنے کردار پر کچھ شک سا محسوس ہوا اور میں دل ہی دل میں اپنے چھ سالہ زمانۂ محبت کی فلم دیکھنے لگا لیکن ماسوائے ایک واردات کہ جب میں نے سہانے مستقبل کے تابناک خواب دیکھتے ہوئے آنکھ بچا کے اپنی منگیتر (موجودہ بیگم) کے ہاتھ پر ہاتھ رکھاتھا (جسے انہوں نے بڑی سرعت سے جھٹک دیا تھا)، کےعلاوہ اور کوئی قابلِ اعتراض بات نظر نہ آئی اس فلم میں۔ پھر بھی تسلی کی خاطر میں نے ان سے سوال کر ہی دیا کہ مجھے کتنا سدھرنے کی ضرورت ہے؟ وہ کچھ خفا ہوتے ہوئے بولیں کہ مذاق مت کریں۔ دیکھیں ناں، اگر آپ باقاعدگی سے نماز پڑھنے لگیں گے تو کتنا اچھا ہو گا۔ میں نے کہا ’’اری نیک بخت اس کے لئے بیعت کی نہیں، مسجد جانے کی ضرورت ہے۔ اگر پیر صاحب کے کہنے سے نماز شروع کرنی ہے تو ان سے زیادہ حق میرے والدین کا ہے جو بچپن سے میرے پیچھے لگے ہیں ’سدھارنے‘ کے لئے‘‘۔
               بہرحال میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بلایا جو بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے بھی پرزور تائید کی اور بتایا کہ فلاں پیر صاحب کے اجداد کو نبی کریمﷺ نے خواب میں حکم دیا تھا کہ پنڈی چلے جاؤ لوگوں کی فلاح کے لئے۔ نبی کریمﷺ کی خواب میں بشارت سے میں مطمئن ہو گیا اور ہم بیعت کے لئے چلے گئے۔ بیعت کے لئے کچھ وعدے لئے گئے کہ نماز نہیں چھوڑنی، جھوٹ نہیں بولنا، زنا نہیں کرنا اور شراب نہیں پینی وغیرہ۔ سچی بات ہے کہ میں نے بڑے بوجھل دل سے وعدے کیے کہ بھاگنے کا راستہ نہیں تھا اور پہلے سے یہ علم نہیں تھا کہ وعدہ لیا جائے گا۔
               آپ بدگمان مت ہوں، حقیقت میں بات یہ ہے کہ میں قسم اور وعدے کے بارے میں بہت محتاط ہوں۔ الحمدللہ زنا اور شراب سے اللہ پاک نے بچایا ہوا ہے، نماز کی کوشش کرتا ہوں البتہ جھوٹ وہ نابکار چیز ہے جس سے تاحال گلوخلاصی نہ ہو سکی۔ وعدے میں بھی بس یہی بات پریشان کر رہی تھی اور اس سے بڑی الجھن یہ تھی کہ یہ تو اللہ پاک کے احکامات ہیں۔ ان کے بارے میں وعدے کی کیا ضرورت ہے اور میں جن صاحب سے یہ وعدہ کر رہا ہوں، ان کی سیرت کے بارے میں شائد کچھ بھی نہیں جانتا۔ کہیں آخرت میں اس بیعت سے متعلق کسی بات پر پکڑ نہ ہو جائے۔
               گھر واپس آئے تو بیگم خوش تھیں لہٰذا ہم بھی خوش ہو گئے مگر ایک تجسس نے دل میں جڑ پکڑ لی کہ آخر بیعت کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنےنکلا تو کئی انکشافات ہوئے مثلاً صحابہ کرامؓ نے بھی رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی (چہ جائے اس کے کہ وہ کیا بیعت تھی اور کس مقصد کے لئے تھی)، خلفائے راشدین کے ہاتھ پر مسلمان ان کی خلافت کو تسلیم کرنے کی بیعت کرتے تھے، خلیفۃ المسلمین بھی مسلمانوں سے وفاداری کی بیعت لیتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سوال پھر بھی قائم رہا کہ ایک آزاد ملک میں مسلمان معاشرے میں، میں کس لئے بیعت کروں اور اس بیعت کی بنیاد کیا ہو؟ یہ حقیقت ہے کہ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا اور مروجہ بیعت سے متعلق جو بدگمانیاں میرے دل میں جنم لیتی ہیں میں انہیں احاطۂ تحریر میں نہیں لانا چاہتا۔
               بات بڑھ گئی ہے غالباً۔ قصہ مختصر (اگر مختصر ہو سکا تو) میں نے حصولِ علم کی جستجو میں بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث مکتب فکر کے لوگوں سے محفل جاری رکھی۔ علماء میں نہ جانے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میرا علم کمزور ہے اور بہکنے کے امکانات زیادہ۔ لفظ ’بہکنے‘ پر معذرت چاہتا ہوں لیکن یہ میری انفرادی سوچ ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں عالم نہیں بلکہ ایک عام مسلمان ہوں اور عوام کی تعداد چونکہ علماء سے کہیں زیادہ ہے لہٰذا مجھے علماء کی کوئی فکر نہیں کیونکہ وہ تو علم رکھتے ہیں کہ آخرت میں کیا ہو گا اور حق کیا ہے۔ مجھے تو ان بے پرواہ اور عاقبت نا اندیش عوام کی فکر ہے جنہوں نے مذہب کا سارا کام علماء کے سپرد سمجھ رکھا ہے اور خود دنیا کو تھامے ہوئے ہیں ۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے بچوں کے نام بھی رکھنے ہوں تو مولوی صاحب سے پوچھیں گے، دعا بھی ان سے کرائیں گے، ختم بھی وہی پڑھیں گے، دین کے مسئلے بھی وہی بتائیں گے، ازدواجی پریشانیوں کو بھی وہی سلجھائیں گے، جنازہ بھی وہی پڑھائیں گے، ہمارے بچوں کو قرآن پاک بھی وہی پڑھنا سکھائیں گے؟ تو پھر ہمارا کام کیا ہے؟ ہم کس مرض کی دوا ہیں؟ جنت میں بھی پھر انہی کو بھیج دیں گے اپنی جگہ۔ او بھائی ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔‘‘
۱          لوگ قرآن پاک کی تلاوت کیوں نہیں کرتے؟
۲          اس عظیم طرزِ حیات کو ترجمہ اور تفسیر سے سمجھ کر اپنی زندگیاں اس کے مطابق کیوں نہیں ڈھالتے؟
۳          نماز کو قائم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ہر ایک جلدی میں ہے۔ نماز میں بھی شارٹ کٹ
            ڈھونڈلئے ہیں اور وضو میں بھی۔ یارو کوئی اہتمام ہی نہیں؟
۴          اپنے گھروں میں رنگین ٹی وی، بہترین فرج، مائیکرو ویو، ڈی وی ڈی پلیئر، کیبل اور انٹرنیٹ تک پہنچا دیا
            ہم نے۔ اپنے نابالغ بچوں کے لئے بھی کمپیوٹر کا جاننا ضروری خیال کرتے ہیں۔ مگر ایمانداری سے بتائیے کہ صحاحِ
            ستہ میں سے کوئی ایک بھی کتاب کتنے گھروں میں ہے؟ اور کتنی باقاعدگی سے اس کا مطالعہ کیا
            جاتا ہے؟اگر آپ ایک دن کےلئےالیکٹرانک میڈیا سے دور رہیں تو کیا حال ہوتا ہے؟ یہ تو نہیں معلوم
            لیکن اگر ایک نمازقضا ہو جائے تو کیا ہوگا؟ اس کی ہمیں ایڈوانس خبر دے دی گئی ہے۔
۵          آپ مجھ جیسے کم علم آدمی سے بھی اگر مسلک (بریلوی، دیو بندی، اہلحدیث) کی بات کریں گے تو میں آپ کا
            دماغ چاٹ جاؤں گا لیکن اگرغسل کے فرائض پوچھیں گے تو شائد میں نہ بتا سکوں۔

               بھائی یہ ہم کن مکاتیبِ فکر کے گرداب میں پھنس گئے؟ کیا ہم سے ان کے بارے میں سوال ہو گا؟ میرا آپ سے سوال ہے کہ جو اللہ کا صریح حکم نہ مانے اسے کیا کہا جائے گا؟ اللہ پاک سورہ اٰلعمران، پارہ چار کے دوسرے رکوع میں فرماتے ہیں:
               ’’ایمان والو اللہ تعالیٰ سے اتنے ہی ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیئے، دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔(آیت) اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ کی اس وقت کی نعمت کو یاد رکھو جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال کر اپنی مہربانی سے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ اورتم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے، اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تا کہ تم راہ پاؤ۔(آیت) تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو بھلائی کی طرف بلاتی رہے اور نیک کاموں کا حکم دیتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے۔ یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔(آیت) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا، انہی لوگوں کےلئے بڑا عذاب ہے۔(آیت) جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ، سیاہ چہرے والوں (سے کہا جائے گا) کہ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیوں کیا۔ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو۔(آیت) اور سفید چہرے والے اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(آیت) اے نبی ہم ان حقانی آیتوں کی تلاوت تجھ پر کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارادہ لوگوں پر ظلم کرنے کا نہیں۔(آیت) اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ (دوسرا رکوع مکمل ہوا)
               براہِ مہربانی اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو ایک بار پھر صدقِ دل سے خلوص کے ساتھ نہایت غور سے پڑھیں، یہ میری آپ سے التجا ہے۔
               دوسری التجا یہ ہے کہ کبھی بھی خود کو کسی مسلک سے وابسطہ شمار نہ کریں کیونکہ اللہ پاک بار بار تفرقہ ڈالنے سے منع فرما رہے ہیں۔ چاہے آپ کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، آپ ایک فرقہ تو شمار ہوں گے ناں۔ الحمد للہ ہم تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ یہ میری بات نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ تو آئیے ہم سب بھائی مل کر اللہ کا یہ حکم اپنے دوسرے بھائیوں تک پہنچائیں، صرف اللہ کی رضا کی خاطر۔ تاکہ روزِ محشر ہمارے چہرے سفید ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم فلاح یاب ہوں۔ آمین، ثم آمین